حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل یہ وہ کلمات جو حضرت ابراہیم ؑ نے اس وقت پڑھے تھے جب انہیں آگ میں پھینکا جا رہا تھا۔اس واقعے کی مکمل تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑنے اپنی قوم کے بتوں کو توڑ ڈالاتو اس پر نمرود سخت برہم ہوااور اس نے حکم دیا کہ بہت بڑی آگ جلانے کا انتظام کیا جائے۔کئی دنوں تک لوگ ایندھن اکٹھا کرتے رہے۔نمرود کے حکم کے مطابق ہر ایک نے ایندھن اکٹھا کیا۔اور ایک بڑے میدان میں اس ایندھن کو رکھا گیا۔اور پھر نمرود نے حکم دیا کہ اس ایندھن کو آگ لگائی جائے۔کہا جاتا ہے کہ جب آگ جلائی گئی تو اس کے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔اور ایسی آگ پہلے کسی نے نہ دیکھی تھی۔تین میل فاصلے پر بھی کوئی پرندہ گرتا تھا تو اس میں جل کر راکھ ہو جاتا تھا۔اس آگ کے قریب کوئی نہ جا سکتا تھا۔یہ بہت بڑی آگ تھی۔اب مسئلہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں کیسے پھینکا جائے؟تو اس وقت ایزان نامی ایک شخص نے منجنیق بنائی جو اس سے پہلے کسی نے نہ بنائی تھی۔اور لوگوں نے حضرت ابراہیمؑ کو پکڑا اور رسیوں میں جکڑ دیاتو اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی زبان مبارک پر یہی کلمات تھے حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل
۔پھر حضرت ؑ ابراہیم ؑ کو بہت سے لوگوں نے منجنیق میں رکھااور منجنیق کو کھینچ کر آگ میں پھینک دیا۔اور حضرت ابراہیم ؑ آگ کے شعلوں میں جا گرے۔یہ منظر دیکھ کر آسمان پر فرشتے بھی سجدہ ریز ہو گئے کہ اے مالک تیرے خلیل کو دشمنوں نے آگ میں پھینک دیا ہے۔علما کرام لکھتے ہیں کہ جب آپ ؑ کو آگ میں پھینکا جا رہا تھاتو حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور عرض کیا ”اے اللہ کے خلیل کیا آپکی کوئی حاجت ہے میں آپ کی مدد کروں؟تو آپ ؑ نے فرمایا کہ حاجت تو ضرور ہے لیکن اس ذات سے جو حاجت کو پورا کرنے والی ہے۔اور فرماتے ہیں کہ بارش اور ہوا کے فرشتے بھی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ حکم دیں تو ہم اس آگ کو بجھا دیں۔لیکن آپؑ کی زبان مبارک پر یہی کلمات تھے۔اور آپ نے ان کو منع فرما دیا۔اور فرمایا کہ ”کہ میرا اللہ ہی میرے لئے کافی ہے وہی میرا مدد گار ہے“وہی میری مدد کرے گا۔پھر لوگوں نے دیکھا کہ وہی آگ جو آسمان کو چھو رہی تھی وہ حضرت ابراہیم ؑ کے لئے گل و گلزار بن گئی۔وہ رسیاں جن سے حضرت ابراہیم ؑ کو باندھا گیا تھا جل کر راکھ ہو گئی لیکن حضرت ابراہیم ؑ کا ایک بال بھی نہ جلا۔اللہ تعالیٰ نے براہ راست آگ کو حکم دیا کہ میرے خلیل کے لئے ٹھنڈی ہو جااور سلامتی والی ٹھندی ہونا۔پھرحضرت جبرائیل ؑ،حضرت ابراہیم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ آپؑ کا صبر بہت عظیم ہے اور آپؑ کا توکل بھی عظیم ہے کہ آپ ؑ نے اللہ کی ذات پر ایسا بھروسہ کیا کہ سامنے ہلاکت کا سامان دیکھ کر بھی آپ کے قدم نہ ڈگمگائے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کے صبر اور توکل پر یہ نعمتیں آپ کو عطا فرمائیں۔
جب اسی یقین اور توکل کے ساتھ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل کا وظیفہ کیا جائے توانسان کی ہر حاجت اور مراد اللہ کے فضل سے پوری ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ اپنے کسی بھی مسئلے کا روحانی حل،علوم کرنا چاتے ہیں تو ان نمبرز پر رابطہ کریں۔
0306-4151113
0301-0147869